سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ اے پی ایس حملے کے مجرموں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے بدھ کو کہا کہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے سے متعلق 2014 کے کیسز میں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کا مقدمہ چلانے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وزارت دفاع کی جانب سے خواجہ حارث پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سویلین جرائم اور فوجی عدالتوں کے درمیان موجودہ گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے فوجی ٹرائل کی اجازت کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ آرمی ایکٹ کے موجود ہونے کے باوجود اس طرح کے ٹرائل پہلے کیوں نہیں کیے گئے۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جرم کی نوعیت طے کرتی ہے کہ مقدمے کی سماعت سویلین عدالت میں ہوگی یا فوجی عدالت میں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر کوئی شہری جرم مسلح افواج سے منسلک ہے تو یہ فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

تاہم جسٹس مندوخیل نے تجویز دی کہ مجرم کے ارادے پر غور کیا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ جرم قومی مفادات کے خلاف ہے۔

خواجہ حارث نے واضح کیا کہ فوجی عدالتیں آئینی ترامیم کے ساتھ یا اس کے بغیر آرمی ایکٹ کے تحت مذہبی یا دہشت گرد گروہوں سے منسلک دہشت گرد کارروائیوں کی سماعت کر سکتی ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ 2014 کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے جیسے اہم مقدمات کو موجودہ قانونی فریم ورک کے تحت نمٹایا جائے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اے پی ایس حملے کا تعلق فوج سے تھا لیکن براہ راست فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم میں فوجی فرائض سے ہٹ کر اضافی جرائم کا احاطہ کیا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ عدالت کی توجہ مخصوص جرائم کی نوعیت پر نہیں بلکہ قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے پر مرکوز ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 21D اور 2D2 کو برقرار رکھا تو فوجی عدالتوں کے چیلنجز کو خارج کر دیا جائے۔

بنچ نے 21ویں آئینی ترمیم کا بھی حوالہ دیا، جس نے اے پی ایس حملے کے بعد دہشت گردی کے مقدمات کے لیے فوجی ٹرائل کی اجازت دی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ترمیم پارلیمانی بحث کا موضوع ہے اور عدالتی استدلال کا اطلاق کیا گیا ہے، جب کہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے جذباتی تناظر کو نوٹ کیا جس میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔

خواجہ حارث نے ترمیم کی منظوری میں پارلیمنٹ کے کردار کا دفاع کرتے ہوئے اس کی منظوری میں سینیٹ کے سابق چیئرمین کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔

اس کے بعد آئینی بنچ نے سماعت (کل) جمعرات تک ملتوی کر دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *